جان ایلیاؔ ۔ خوب صورت کلام

گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا

تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

مل رہی ہو بڑے تپاک کے ساتھ

مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا

یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں

مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا

بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا

سوچتی ہو تو سوچتی ہو کیا

اب مری کوئی زندگی ہی نہیں

اب بھی تم میری زندگی ہو کیا

کیا کہا عشق جاودانی ہے!

آخری بار مل رہی ہو کیا

ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے

تو بہت تیز روشنی ہو کیا

میرے سب طنز بے اثر ہی رہے

تم بہت دور جا چکی ہو کیا

دل میں اب سوز انتظار نہیں

شمع امید بجھ گئی ہو کیا

اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں

بان تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا

یا اک رشتہ پیدا کیوں کریں ہم

بچھڑنا ہے تو جھگڑا کیوں کریں ہم

خموشی سے ادا ہو رسم دوری

کوئی ہنگامہ برپا کیوں کریں ہم

یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں

وفا داری کا دعویٰ کیوں کریں ہم

وفا اخلاص قربانی محبت

اب ان لفظوں کا پیچھا کیوں کریں ہم

ہماری ہی تمنا کیوں کرو تم

تمہاری ہی تمنا کیوں کریں ہم

کیا تھا عہد جب لمحوں میں ہم نے

تو ساری عمر ایفا کیوں کریں ہم

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری

تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم

یہ بستی ہے مسلمانوں کی بستی

یہاں کار مسیحا کیوں کریں ہم

Urdu heart touching poetry

سات سمندر پار تو باتیں ہو جاتی ہیں
کیا ماضی میں کال ملائی جا سکتی ہے؟

اس نے ہنس کر میری جانب دیکھ لیا ہے
یعنی اس سے بات بڑھائی جا سکتی ہے

نئی محبت مہنگی پڑتی ہے تو دیکھو
کوئی پرانی ٹھیک کرائی جا سکتی ہے

دروازے پر دستک دے کر دیکھ لیا ہے
دروازے سے ٹیک لگائی جا سکتی ہے

زندگی سے بھی خواب ہمیں کچھ مل سکتے ہیں
جیسے موت سے نیند چرائی جا سکتی ہے

ن م
انتخاب : جویریہ صدیقی

اردو_Trend

محسن نقوی شاعری ۔Mohsin Naqvi

ذکر شب فراق سے وحشت اسے بھی تھی

میری طرح کسی سے محبت اسے بھی تھی

مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا

رستہ بدل کے چلنے کی عادت اسے بھی تھی

اس رات دیر تک وہ رہا محو گفتگو

مصروف میں بھی کم تھا فراغت اسے بھی تھی

مجھ سے بچھڑ کے شہر میں گھل مل گیا وہ شخص

حالانکہ شہر بھر سے عداوت اسے بھی تھی

وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا

ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی

سنتا تھا وہ بھی سب سے پرانی کہانیاں

شاید رفاقتوں کی ضرورت اسے بھی تھی

تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید

سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی

محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل

درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی

fb.watch/31s4xtvIXy/

Aashiqi main Meer Jesay Khan| Urdu Heart touching Poetry | Ahmed Faraz

عاشقی میں میرؔ جیسے خواب مت دیکھا کرو

باؤلے ہو جاؤ گے مہتاب مت دیکھا کرو

جستہ جستہ پڑھ لیا کرنا مضامین وفا

پر کتاب عشق کا ہر باب مت دیکھا کرو

اس تماشے میں الٹ جاتی ہیں اکثر کشتیاں

ڈوبنے والوں کو زیر آب مت دیکھا کرو

مے کدے میں کیا تکلف مے کشی میں کیا حجاب

بزم ساقی میں ادب آداب مت دیکھا کرو

ہم سے درویشوں کے گھر آؤ تو یاروں کی طرح

ہر جگہ خس خانہ و برفاب مت دیکھا کرو

مانگے تانگے کی قبائیں دیر تک رہتی نہیں

یار لوگوں کے لقب القاب مت دیکھا کرو

تشنگی میں لب بھگو لینا بھی کافی ہے فرازؔ

جام میں صہبا ہے یا زہراب مت دیکھا کرو

āshiqī meñ ‘mīr’ jaise ḳhvāb mat dekhā karo

bāvle ho jāoge mahtāb mat dekhā karo

jasta jasta paḌh liyā karnā mazāmīn-e-vafā

par kitāb-e-ishq kā har baab mat dekhā karo

is tamāshe meñ ulaT jaatī haiñ aksar kashtiyāñ

Dūbne vāloñ ko zer-e-āb mat dekhā karo

mai-kade meñ kyā takalluf mai-kashī meñ kyā hijāb

bazm-e-sāqī meñ adab ādāb mat dekhā karo

ham se durveshoñ ke ghar aao to yāroñ kī tarah

har jagah ḳhas-ḳhāna o barfāb mat dekhā karo

māñge-tāñge kī qabā.eñ der tak rahtī nahīñ

yaar logoñ ke laqab-alqāb mat dekhā karo

tishnagī meñ lab bhigo lenā bhī kaafī hai ‘farāz

Poetry copied from Rekhta

jaam meñ sahbā hai yā zahrāb mat dekhā karo

Nusrat fateh ali Khan legend -Qawwal

نصرت فتح علی خان:

سنہ 1960 کی دہائی میں فیصل آباد کے صوفی بزرگ سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار پر ایک کم عمر نوجوان نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھ رہا ہے۔ یہ بظاہر کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ پنجاب کا یہ لڑکا دنیائے موسیقی میں ’شہنشاہِ قوالی‘ بن جائے گا۔
اس کا تعلق تو قوال گھرانے سے ہی تھا۔ اس جیسے کئی نوجوانوں کو بچپن سے ہی سُر، تال اور لے کا نصاب پڑھایا جاتا تھا، وہ چاہیں نہ چاہیں۔
لیکن یہ کم عمر لڑکا اپنے سُروں کی پختگی اور لے کی اٹھان میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہ اسے سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔
قیام پاکستان سے قبل انڈیا کے شہر جالندھر سے ہجرت کر کے آئے پٹیالہ گھرانے کے اس سپوت کا نام تھا نصرت فتح علی خان۔

لیکن یہ وہ وقت تھا جب نصرت کو کوئی نہیں جانتا تھا۔ ہاں سب کو یہ ضرور علم تھا کہ وہ اس دور کے معروف قوال استاد فتح علی خان کا بیٹا ہے۔
نصرت نے بچپن ہی سے موسیقی کو اپنا جنون بنا لیا تھا اور صرف دس برس کی عمر میں ہی وہ طبلہ بجانے پر کمال مہارت حاصل کر چکے تھے۔
سنہ 1960 کی دہائی کے شروع میں ہی اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لینا شروع کی اور ستر کی دہائی میں استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی کی

دربار لسوڑی شاہ پر قوالی سے شہنشاہ قوالی تک کا سفر
تحریر :عماد خالق بی بی سی اردو

فیصل آباد کے مشہور جھنگ بازار کے ایک دربار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے اس ہیرے پر میاں رحمت نامی جوہری کی نظر پڑی جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی فیصل آباد میں گراموفون ریکارڈز کی دکان کے مالک تھے۔
ان کے نصرت کے والد استاد فتح علی خان کے ساتھ پہلے سے مراسم تھے۔
گانے والا تھک گیا، نصرت کا طبلہ نہیں رُکا
میاں اسد جو رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو کے مالک میاں رحمت کے صاحبزادے ہیں، نصرت سے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی بے شمار ایسی یادیں ہیں جو آج بھی ان کے ذہن کے دریچوں میں تازہ ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد میاں رحمت نصرت کے گھرانے کو 1960 کی دہائی سے جانتے تھے۔
‘سب سے پہلے میرے والد کی ملاقات نصرت کے والد فتح علی خان سے ہوئی تھی جو اس وقت فیصل آباد کے مشہور قوال تھے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘نصرت سے میرے والد کی شناسائی تو ان کے پجپن سے ہی تھی مگر ستر کی دہائی میں جب انھوں نے باضابطہ طور پر اپنے چچا استاد مبارک کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی سنبھالی تو میرے والد نے نصرت کو بطور فنکار نوٹس کرنا شروع کیا۔‘
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘آغاز میں نصرت فیصل آباد کے ایک صوفی بزرگ سائیں محمد بخش المعروف بابا لسوڑی شاہ کے دربار پر نعتیہ کلام پڑھتے اور قوالی گایا کرتے تھے۔ ان کی رہائش گاہ بھی اس دربار کے سامنے ہی تھی۔’

کلام منتخب کرنا، پڑھنا نصرت نے سکھایا‘
میاں اسد کا کہنا ہے کہ زمانہ طالبعلمی سے ہی نصرت کے ساتھ رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو یا گھر پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ تاہم ’نصرت کے ساتھ باضابطہ طور پر میرا پیشہ وارانہ تعلق سنہ 1992 میں قائم ہوا جب وہ اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔‘
وہ کہتے ہیں’ ابا جی سے ان کے قصے اور باتیں سنتے رہتے تھے، ان سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی کبھی دکان پر تو کبھی ہمارے گھر پر۔’

میاں اسد کے مطابق ان کے والد میاں رحمت ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے آئے جہاں سے انھوں نے اپنی قوالیوں اور غزلوں کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا اور پھر ترقی اور شہرت کی منزلوں کو چھوتے گئے۔
میاں اسد بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کی گئیں نصرت کی چند ابتدائی قوالیوں میں سے ایک ‘یاداں وچھڑے سجن دیاں’ اور دوسری ‘علی مولا علی مولا’ تھیں جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس کے علاوہ اور بھی سینکڑوں قوالیاں ریکارڈ کی گئیں تھیں۔
‘ان کی بے شمار ریکارڈنگز کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہو گیا اور وہ ہمارے سٹوڈیو ریکارڈنگز کے لیے آتے رہے۔’
میاں اسد کے مطابق رحمت گراموفون ہاؤس ریکارڈنگ کمپنی نے نصرت کے ایک سو سے زائد میوزک البمز ریکارڈ کر کے مارکیٹ میں ریلیز کیے۔
جن میں صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ کا کلام ‘کی جاناں میں کون’ سمیت متعدد دوسرے کلام شامل ہیں۔

کہتے ہیں کہ ‘اگر نصرت اور رحمت گراموفون کے تعلق اور سفر کو یاد کرنے بیٹھے تو ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو چلتا رہے گا۔’
ایسے ہی ایک اور شخص الیاس حسین ہیں جو نصرت کی جوانی سے ان کے شاگرد اور ان کی قوال پارٹی میں بطور پرومپٹ خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔
واضح رہے کہ پرومپٹ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی شو یا ریکارڈنگ کے دوران مرکزی قوال کے پیچھے بیٹھے کلام یا غزلوں کی کتاب تھامے قوال کو اگلے مصرعے یاد کرواتا یا بتاتا ہے۔
58 سالہ الیاس حسین ان کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ‘ہمارا خاندان فتح علی خان کے گھرانے میں کئی پشتوں سے خدمات کرتا آیا ہے۔ میں سنہ 1975 سے نصر ت فتح علی خان کو جانتا ہوں، تب میں سکول جاتا بچہ تھا اور والد کے ساتھ ان کے گھر کام کاج کرنے جاتا تھا۔ میں ان کا شاگرد تھا، سنہ 1983 سے 1997 میں ان کی وفات تک ان کی قوال پارٹی میں شامل رہا۔’
ان کا کہنا ہے کہ ‘میرے دادا اور والد بھی ان کے گھرانے کے شاگرد تھے، ہمیں اس گھرانے سے عشق تھا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ دس برس کی عمر سے جب میں نے وہاں جانا شروع کیا تو کچھ عرصے بعد ہی مجھے استاد فرخ فتح علی خان جو راحت فتح علی خان کے والد ہیں نے کہا کہ میں پرومپٹ کا کام کرنا سیکھوں۔ آہستہ آہستہ مجھے استاد نصرت اور فرخ فتح علی خان نے یہ سکھانا شروع کر دیا۔’
وہ بتاتے ہیں بعد میں ’کلام کو منتخب کرنا اور پڑھنا لکھنا مجھے استاد نصرت فتح علی خان نے سکھایا۔’
الیاس حسین یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کروائی جانے والی مشہور قوالی میں سے ‘لجپال نبی میرے درداں دی دوا’ اور غزلوں میں سے ‘یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں انکھیاں چو میہنہ وسدا’ بھی دیگر سینکڑوں کے ساتھ شامل ہیں۔
پہلی مرتبہ سولو: ’آؤ خاں صاحب اج سولو ریکارڈ کرو‘

میاں اسد، نصرت فتح علی خان کی پہلی سولو ریکارڈنگ کا واقعہ کچھ یوں بتاتے ہیں کہ ’یہ اسّی کی دہائی کا وقت تھا اور ایک دن استاد نصرت ریکارڈنگ کے لیے حسب روایات رحمت گراموفون وقت سے قبل ہی آگئے اور انتظار کے باوجود، ان کے ہمنوا وقت پر نہ پہنچے تو میرے والد نے پنجابی میں ان سے کہا ’آؤ خاں صاحب اج سولو ریکارڈ کر دے ہاں۔‘
’اس پر نصرت فتح علی خان پہلے تو پریشان ہوئے مگر پھر میرے والد کے اصرار پر حامی بھر لی اور فوری طور پر سٹوڈیو میں موجود ایک شاعر سے غزل لکھوائی گئی اور انھوں نے پہلی مرتبہ سولو ریکارڈنگ کی ابتدا کی۔’
میاں اسد کہتے ہیں ‘ان کی ابتدائی سولو ریکارڈنگ میں سے سب سے زیادہ مقبول ‘سُن چرخے دی مِٹّھی مِٹھّی کُوک‘ تھی۔
’جب یہ غزل مارکیٹ میں آئی تو ان کی گائیکی کو ایک نیا بام عروج ملا۔ بلکہ اس وجہ سے کئی گلوکار اور ہمنوا ہم سے ناراض بھی ہوئے کہ اب خاں صاحب کو شاید ان کی ضرورت نہیں۔’
سٹوڈیو میں نصرت کا خاص صوفہ
رحمت گراموفون کے مالک میاں اسد یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نصرت کا ان کے والد سے تعلق بہت گہرا اور دوستانہ تھا، کیونکہ وہ بات چیت کے شوقین تھے اس لیے اکثر دکان پر آ جاتے تھے۔
’بھاری جسامت کے باعث انھیں وہاں زیادہ دیر بیٹھنے میں مشکل پیش آتی اس لیے میرے بڑے بھائی نے ان کے لیے ایک خاص صوفہ بنوایا تاکہ وہ آرام سے اس پر بیٹھ سکیں۔’
اس صوفے کی تلاش تو ممکن نہ ہوسکی لیکن اب جو بھی اس صوفے پر بیٹھتا ہوگا، وہ نہایت خوش نصیب شخص ہوگا۔
ساری ساری رات ریاض

میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘نصرت فتح علی خان سے پیشہ وارانہ تعلق کے تجربے کا اگر تجزیہ کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید وہ واحد قوال ہیں جن کا کوئی کلام، کوئی غزل ایسی نہیں جو کہیں چل رہی ہو تو موسیقی سننے والا یہ کہہ دے کہ اس کو فارورڈ کریں۔
’لوگ ان کی آواز کو سنتے تھے، ان کی ادائیگی کو سنتے تھے۔ انھیں موسیقی سے عشق تھا اور وہ اس متعلق بہت حساس تھے۔‘
ان کے دریرنہ ساتھی، شاگرد اور ہمنوا الیاس حسین کا کہنا ہے کہ ‘خان صاحب دنیا کے کسی بھی حصے میں خواہ کتنا ہی طویل دورانیے کا شو پرفارم کر کے جب واپس ہوٹل آتے تو ہمیں کہتے کہ میرا ہارمیونیم باجا میرے کمرے میں رکھ دو، ہم اپنی نیند پوری کر کے اٹھتے تو دیکھتے کے وہ اس پر ریاض کر رہے ہیں۔’
الیاس حسین کے مطابق ‘وہ سوتے وقت بھی بستر پر اپنا ہارمونیم ساتھ رکھ کر سوتے تھے اور نیند میں بھی ایک انگلی اس پر رکھی ہوتی تھی۔’
الیاس کا کہنا ہے کہ ‘دوران سفر جہاز میں جب ہارمونیم موجود نہ ہوتا تو اپنے سینے یا پیٹ پر ہی انگلیوں سے سروں کی ریاضت کرتے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ساری زندگی انھیں کبھی ہارمونیم کے بغیر نہیں دیکھا۔’

میاں اسد، نصرت فتح علی خان کی موسیقی اور سروں کی سمجھ کے متعلق ایک واقعہ سناتے ہیں کہ ‘ایک بہت بڑی نجی محفل میں جہاں وہ خود بھی موجود تھے نصرت علی خان پرفارم کر رہے تھے اور لوگ ان کی دھنوں اور قوالیوں پر دیوانہ وار جھومنے کے ساتھ ساتھ ان پر ویلوں کی صورت نوٹ نچھاور کر رہے تھے، کہ اچانک انھوں نے اپنے سازندے سے اشارے سے کہا کہ ہارمونیم کے سر ٹھیک نہیں ہیں دیکھوں اس میں کیا مسئلہ ہے جب غور کیا گیا تو اس باجے کی ہوا والی جگہ پر ایک ہزار کا نوٹ پھنسا ہوا تھا جو سُر کو دبا رہا تھا۔’

میاں اسد نصرت فتح علی خان کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘وہ ایک درویش صفت انسان تھے، انتہائی مخلص اور عزت دینے والے باوفا انسان تھے۔’
میاں اسد کے مطابق ‘نصرت فتح علی خان دوستوں کی محفل یا بیٹھک کے شوقین تھے اور گپ شپ کرنا پسند کرتے تھے تاہم ان کی گفتگو کا زیادہ تر عنصر موسیقی ہی ہوتا تھا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ نصرت ‘ریکارڈنگ سے دو تین گھنٹے قبل ہی دکان (رحمت گراموفون ہاوس) آ جایا کرتے تھے اور میرے بڑے بھائی میاں ارشد اور والد سے گپ شپ لگاتے تھے۔’
میاں اسد کا کہنا ہے کہ ‘وہ بہت ایماندار اور لحاظ رکھنے والے شخص تھے۔ نہایت حساس طبیعت کے نفیس انسان تھے۔’

Ahmed Nadeem Qasmi best Urdu Heart touching poetry

جو لوگ دشمن جاں تھے وہی سہارے تھے
منافعے تھے محبت میں نے خسارے تھے
حضور شاہ بس اتنا ہی عرض کرنا ہے
جو اختیار تمہارے تھے حق ہمارے تھے
یہ اور بات بہاریں گریز پا نکلیں
گلوں کے ہم نے تو صدقے بہت اتارے تھے
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں
وہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے
اب اذن ہو تو تری زلف میں پرو دیں پھول
کہ آسماں کے ستارے تو استعارے تھے
قریب آئے تو ہر گل تھا خانۂ زنبور
ندیمؔ دور کے منظر تو پیارے پیارے تھے

احمد ندیم قاسمی

Gulzar ki khoobsoort nazm –

گلوں کو سننا ذرا تم صدائیں بھیجی ہیں
گلوں کے ہاتھ بہت سی دعائیں بھیجی ہیں

جو آفتاب کبھی بھی غروب ہوتا نہیں
ہمارا دل ہے اسی کی شعاعیں بھیجی ہیں

اگر جلائے تمہیں بھی شفا ملے شاید
اک ایسے درد کی تم کو شعاعیں بھیجی ہیں

تمہاری خشک سی آنکھیں بھلی نہیں لگتیں
وہ ساری چیزیں جو تم کو رلائیں، بھیجی ہیں

سیاہ رنگ چمکتی ہوئی کناری ہے
پہن لو اچھی لگیں گی گھٹائیں بھیجی ہیں

تمہارے خواب سے ہر شب لپٹ کے سوتے ہیں
سزائیں بھیج دو ہم نے خطائیں بھیجی ہیں

اکیلا پتا ہوا میں بہت بلند اڑا
زمیں سے پاؤں اٹھاؤ ہوائیں بھیجی ہیں

  • گلزار